Welcome to Pak Afghan Youth Forum

Pak Asia
Youth Forum

Don't just dream it
Be the bridge. Build a better tomorrow

دس اپریل 1988۔ سانحہ اوجڑی کیمپ

80 کی دہائی میں پیدا ہونے والے خواتین و حضرات کے لئیے یہ اس وقت کے بڑے واقعات میں سے ایک واقعہ تھا۔ اوجڑی کیمپ یا حمزہ کیمپ میں پڑے افغان جہاد کے لئیے آئے امریکی اسلحے میں ایک دھماکے کی وجہ سے جڑواں شہروں میں راکٹس کی بارش شروع ہوگئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون ٹو میں اپنی بڑی خالہ کے گھر میں تھا۔ جب یہ دھماکہ ہوا، تو دور فیض آباد کی جانب دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے نظر آئے۔
میں جلدی سے ان کی چھت جس کی رسائی ایک پانی کے چھوٹے پائپ کے ذریعے ممکن تھی، اس پر جا چڑھا اور اپنی آنکھوں کو ہی دور بین سمجھتے ہوئے فیض آباد کی جانب رخ کر کے کھڑا ہوگیا۔ چند ہی لمحوں بعد آس پاس سے دو تین راکٹز گزرے تو میرے بڑے کزنز کو احساس ہوا کہ معاملہ خطرناک ہے۔ میں اس وقت چونکہ کافی چھوٹا تھا اور خطرے کا احساس اس لحاظ سےنہیں کر پارہا تھا، لیکن بڑے کزنز کی چیخ و پکار پر فورا نیچے اترا۔ اس کے بعد ہم سب گھر سے باہر بھاگے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ اسلام آباد پر کوئی بیرونی حملہ ہوگیا ہے۔
سرکاری گھروں کے بیچ و بیچ ایک چھوٹے خوبصورت گراؤنڈ میں اس محلے کے تمام لوگ جمع ہونا شروع ہوئے اور گراؤنڈ کے ایک سرے پر لگے درختوں کی نیچے جا کھڑے ہوئے۔ یہ اس وقت تک تقریبا تمام لوگوں کو سمجھ آچکی تھی کی میزائل پنڈی کی جانب سے آرہے ہیں سو وہ تمام لوگ ایک طرح سے ایسی جگہ کھڑے ہوئے تھے جو ان کے نزدیک قدرے محفوظ تھی۔ ہمارے سروں کے اوپر سے گزرتے راکٹس، جو ان درختوں کے بیچ سے جب گزرتے اور پتوں سے ٹکراتے تو اس کے نتیجے میں لوگوں کے ہلکی ہلکی خوف سے نکلتی چیخیں اور زبان پر اللہ کا نام اونچا اونچا لینا مجھے آج بھی یاد ہیں۔ اللہ بھی ہمیں بس ایسے ہی مواقع پر یاد آتے ہیں۔
تقریبا ایک دو گھنٹے تک یہ معاملہ چلتا رہا۔ اور پھر طوفان تھما شروع ہوا۔
بعد ازاں کافی دن تک مختلف اخبارات میں خبریں آتی رہیں کہ فلاں جگہ اور فلاں گھر سے راکٹس ملے ہیں جو پھٹے نہیں۔ میرے والد صاحب کی دکان اس واقعے کے بعد اس زمانے میں سواں کیمپ سے تھوڑا آگے تھی۔ ان کی دکان کے پاس بھی ایسا ہی ایک راکٹ زمین میں دھنسا ہوا ملا تھا۔ جو لوگوں کا خیال تھا کہ اوجڑی کیمپ کی اس کاروائی کی باقیات ہی تھی۔
خیر یہ واقعہ ایسا ہے کہ پاکستان کی اکثر آج کل کے نوجوان اس سے ناواقف ہیں۔ صرف ایک سیاسی معاملے کے طور پر اس کو ضرور استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن تفصیلات شاید چند لوگ ہی اب بیان کرتے ہوں۔
سنہ 1988 پاکستان اور اس خطے کی تاریخ کا ایک بہت مختلف سال تھا۔ اس پر پھر کبھی کچھ لکھوں گا۔

دیکھیے: پاکستان کے نظریاتی تشخص کی بازیابی

تمام آراء مصنف کی ذاتی رائے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ یہ پاک-افغان یوتھ فورمکے سرکاری مؤقف یا پالیسی کی عکاسی کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top